یوں ہی کسی یاد میں میرا دل کباب ہے
آنسو نہیں ان آنکھوں میں پیار کا شراب ہے
چھاؤں میں تیری زلف کی ایسا شباب ہے
جیسے دریاۓ سورو میں اٹھتا حباب ہے
تم کو ذرا اثر نہیں اے آسماں جناب
روتا ہے بے کسی پہ میری کہ آفتاب ہے
اک آن کے لۓ تیرا جلوہ دکھا ہمیں
کیوں اے صنم سدا تیرے رخ پر نقاب ہے
اوروں کو تو نے اپنے حرم میں بلا لیا
میرے نصیب میں کیوں تیرے گھر کا طواف ہے
کانٹے بچھاؤ اور میری راہ میں اے رقیب
میرے لۓ ہر ایک کانٹا گلاب ہے
دہشت ہے ,غم ہے ,ظلم ہے اور ...