نیشنل ہائی وے 301: انتظامی وعوامی بے حسی کے بوجھ تلی شاہراہ”

تحریر: ایس ایچ رضوی

کرگل سے زنسکار کو جوڑنے والی مرکزی شاہراہ، جسے یونین ٹیریٹری بننے سے پہلے ہی “نیشنل ہائی وے 301” کا درجہ دیا گیا تھا، آج بدقسمتی سے ایک ترقیاتی منصوبے کے بجائے انتظامی بدنظمی، سرکاری غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور عوامی بے حسی کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔

یہ شاہراہ نہ صرف لداخ کے دو اہم خطوں—کرگل اور زنسکار—کو آپس میں جوڑتی ہے، بلکہ یہ اقتصادی، دفاعی اور سیاحتی اعتبار سے بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی تعمیر و توسیع کا عمل ایک قومی ہدف کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ مگر پانچ سال گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا، بلکہ سڑک کی موجودہ حالت اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ خوابوں اور حقیقتوں کے بیچ ایک طویل خلیج حائل ہے۔

* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *

نیشنل ہائی وے کی عالمی معیار کے مطابق چوڑائی 60 فٹ یا اس سے زائد ہونی چاہیے۔ تاہم، ذرائع کے مطابق منجی سے سانکو کے درمیان گنجان آبادی اور زمین کی تنگی کے پیشِ نظر، اس وقت کے ہل کونسل کی سفارش پر اس کی چوڑائی کو گھٹا کر 44 فٹ تک محدود کر دیا گیا۔ یہی نہیں، ٹی ایس جی علاقے میں اسے مزید کم کر کے صرف 35 فٹ پر اکتفا کر لیا گیا، جس سے ٹریفک کا بہاو¿ بری طرح متاثر ہوا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ جس زمین پر تعمیرات کو ہٹانے کے بدلے کروڑوں روپے معاوضہ دیا گیا، اسی زمین پر بعض بااثر افراد نے دوبارہ مکانات تعمیر کر لیے، جس سے سڑک مزید تنگ ہو گئی ہے۔ اس بے ضابطگی پر نہ کوئی مو¿ثر کارروائی کی گئی، نہ ہی کسی ادارے نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔

کرگل سے کھاچن کے درمیان سڑک پر گزشتہ آٹھ ماہ سے مکمل خاموشی ہے۔ ٹھیکیدار نے کام بند کر دیا، جبکہ نیشنل ہائی وے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NHIDCL) تاحال نیا ٹینڈر جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس غفلت کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 45 منٹ کا فاصلہ اب ڈیڑھ گھنٹے سے زائد میں طے ہوتا ہے، اور سڑک کی خستہ حالی سے گاڑیاں تباہ ہو رہی ہیں، زرعی زمینیں متاثر ہو رہی ہیں اور گھروں میں بسنے والوں کو گرد و غبار سے صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔

یہ سڑک جس وادی سے گزرتی ہے، وہ پورے لداخ کی حسین ترین وادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ پچھلے سال عالمی سطح پر اس علاقے کو خوبصورت ترین سیاحتی مقام قرار دیا گیا تھا۔ لیکن سڑک کی بدترین حالت اب سیاحوں کے لیے بدذوقی کا سبب بن چکی ہے، اس سے خوبصورتی پر بدنظمی کا داغ سمجھاجارہاہے۔ اکثر سیاح جو اس علاقے کے قدرتی حسن سے متاثر ہوتے تھے، اب ٹوٹی سڑکوں اور گرد آلود سفر سے عاجز آ کر دوبارہ آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یوں سڑک کی خرابی نہ صرف مقامی معیشت بلکہ پورے خطے کے سیاحتی مستقبل کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

علاقے میں کم از کم 10 کونسلرز اور کئی دیگر نمائندے موجود ہیں، مگر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ عوامی مسائل پر بولنے اور مو¿ثر اقدام کرنے کی بجائے سیاسی مصلحتوں یا ذاتی مفادات نے ا±ن کی زبان بند کر رکھی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق سڑک اور عوامی مفاد کی تعمیر کے لیے حتیٰ کہ مسجد جیسی مقدس جگہ کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ کئی افراد نے معاوضہ لینے کے باوجود تجاوزات ختم نہیں کیے، بلکہ دوبارہ تعمیرات کر کے سڑک کی تنگی میں مزید اضافہ کیا۔ ایسے میں علما کرام، مساجد کے امام، اور دینی اداروں کو آگے بڑھ کر عوام کو اخلاقی اور شرعی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا۔

کرگل-سانکو سڑک پورے لداخ میں سب سے زیادہ مصروف شاہراہ سمجھی جاتی ہے، جہاں روزانہ سینکڑوں گاڑیاں چلتی ہیں۔ وقت پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہی سڑک مستقبل میں سنگین حادثات اور طویل ٹریفک جام کا گڑھ بن سکتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ عوامی نمائندے، سول سوسائٹی، مذہبی قیادت اور مقامی انتظامیہ اپنی خاموشی توڑیں، اور نیشنل ہائی وے 301 کو صرف کاغذوں کا منصوبہ نہیں، بلکہ عملی ترقی کی مثال بنائیں۔ NHIDCL جیسے اداروں کو جواب دہ بنانا اور ٹھیکیداروں سے کام کی بروقت تکمیل کا مطالبہ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

ورنہ کل کو جب سڑک مزید بگڑ جائے گی، سیاح منہ موڑ لیں گے، حادثات بڑھ جائیں گے، اور ترقی ایک خواب بن کر رہ جائے گی، تب صرف عوام ہی نہیں بلکہ تاریخ بھی ان سب کو جواب دہ ٹھہرائے گی۔

1 Comments

  1. You are absolutely right sir. I really appreciate your stand and strongly support your words. I m also witnessing the pathetic situation of the roads from last few years.
    I request honourable LG Ladakh to kindly personally intervene n sort out the matter at earliest.

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>