گلگت بلتستان کی حکومت اپوزیشن سے لڑنا چاہتی ہے. امجد حسین ایڈووکیٹ

ایجنسیز/یکم جولایی/ اپوزیشن لیڈرگلگت بلتستان اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت اپوزیشن سے لڑنا چاہتی ہے.حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ طبل جنگ بجایا ہے. ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم حکومت میں ہیں اور حکومت اپوزیشن میں ہے. اور وہ ہم سے لڑنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفاع کرنا اپوزیشن کاحق ہے.اب ہم اپنا دفاع کرینگے اور دفاع میں جو کچھ ہو سکتا ہے وہ سب کچھ کرینگے۔ حکومت نے قلم کے زریعے اے ڈی پی میں اپوزیشن ممبران کے خلاف کاروائی کی۔حکومت نے اپوزیشن کو لڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔ہمارے پاس لڑنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

اس لڑائی کا آغاز اپوزیشن نے نہیں بلکہ حکومت نے خود کی ہے۔ اب اس کا انجام کیا ہوتا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں۔حکومت نے ایسی اے ڈی پی بنائی ہے جو بجٹ رولز کے خلاف ہے۔آریٹکل 120اور 124 اور رولز آف بزنس اور گورنینس آرڈکے منافی بنایا ہے۔

اے ڈی پی میں سکیموں کو شامل کرنے کا باقاعدہ نظام گورننس آڈر میں موجود ہے مگر موجودہ حکومت نے پلاننگ کمیشن کو بھی بائی پاس کر کے سکیموں کو اے ڈی پی میں شامل کیا ہے۔ ان سکیموں پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا ہے۔وزراء نے سکیموں کے اوپر کوئی کام نہیں کیا اور آخری وقت میں فرمایشی سکیموں کو پرچی پر لکھا کر اے ڈی پی میں شامل کروایا ہے۔ان سکیموں کی نہ ڈی ڈبلیو پی ہوئی ہے اور نہ ہی متعلقہ محکموں سے ان سکیموں کا پی سی ون بنا ہوا ہے۔

بجٹ پروجیکٹس مخصوص ہوتا ہے مگر یہاں پر تو پرواجیکٹس وزراء پر مخصوص کیا گیا ہے۔جس پر کسی صورت بھی عمل درآمد نہیں ہو سکتا ہے۔ وزیراعلی اور وزرائ نے اپوزیشن حلقوں کو خالی کیوں کر دیا۔ حکومت اپوزیشن حلقوں میں تعلیم ،صحت اور پانی کی سکیموں کو ختم کر ے گی تو ہم اس شہر میں کس طرح رہیں، اپوزیشن حلقے میں پانی نہ ہو، بجلی نہ ہو اور وزیر اعلی اس شہر میں حکمرانی کریں تو ہم کیسے برداشت کرینگے۔

کچھ لوگ ہم پر تنقید کرتے ہیں کہ ہم گلگت شہر کی بات کرتے ہیں، پھر ہم کس چیز پر بات کریں،بحثیت اپوزیشن لیڈر اسمبلی فورم پر میں نے دیامر کے دو حلقوں کی بات کی، گانچھے مشربروم کے حلقے کی بات کی ،نگر حلقہ چار کی بات کی جو ترقیاتی سکیموں سے محروم رہا، میں نے غذر کے دو حلقوں کی بات کی جو اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے عوامی نوعیت کی سکیموں سے محرم رہے،بجٹ سیشن میں میں نے اپوزیشن کے چھ حلقوں کی نمائندگی کی اور ان حلقوں کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر آواز بلند کی،میں نے کبھی ایک حلقے کو فوکس نہیں کیا چونکہ میں اپوزیشن لیڈر تھا، اسمبلی فورم پر اپوزیشن ممبران کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا پورا ڈیٹا میں نے اسمبلی میں چار گھنٹے کی طویل تقریر کرکے حکومت اور سپیکر کے سامنے رکھا،حکومتی ناانصافی کو ایک ایک کر کے ایوان میں پیش کیا،بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیر اعلی سے اپوزیشن ممبران کی ملاقات ہوئی جس میں وزیر اعلی کنے یقین دہائی کرائی کہ اپوزیشن کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی،مگر وزیر اعلی وعدے کے بعد مکر گئے،اور اپوزیشن کے ساتھ وعدہ خلافی کی۔

اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے کہ شاہد ان کو خود پتہ چل چکا ہے کہ یہ ان کا آخری بجٹ ہے،حکومت نے ایسی جنگ کا آغا ز کیا ہے کہ اس جنگ میں نہ حکومتی ممبران بچیں گے اور نہ ہی اپوزیشن ممبران بچیں گے،بجٹ میں حکومت میں ایسا ظلم کیا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے،حکومتی ارکین ملاقاتوں اور ایوان میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور جب اختیارت استعمال کرنے کی بات آئے تو وہاں پر یہ اپنی اوقات دکھاتے ہیں، اب مزید ان کے اوپر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے، انہوں نے ہمیشہ عوام کو دھوکا دیا ہے،اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان لیوں کی سکمیوں پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، کیونکہ یہ سکمیں پلاننگ کمیشن نے بنائی تھیں، ان سکیموں میں صوبائی حکومت کی کوئی داخل اندازی نہیں ہوئی تھی، پلاننگ محکمے کی جانب سے ڈسٹرک سطح پر دی جانے والی تمام سکیموں کو موجودہ حکومت نے تبدل کر دیا ہے، اے ڈی پی میں ڈسٹرک سطح کی سکیموں سے ان کا اصلی چہرہ عوام کے سامنے آ گیا ہے،اور انکی بدنیتی اور ان کا مستقبل کا چہرہ عوام کے سامنے آ گیا ہے، اب اپوزیشن کے پاس اس بجٹ کو دیکھنے کے بعد احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچ گیا ہے،اب اپوزیشن ممبران آخری حد تک جانے کو تیار ہیں،اب اپوزیشن کا کچھ نہیں جائے گا، اب حکومت کے جانے کا وقت شروع ہو گیا ہے، اب حکومت کو نقصان ہو گا اور بہت کچھ حکومت سے جائے گا،حکومت کو پہلے سمجھنا چاہئے تھا، حکومت کو بات کرنی چاہئیے تھی حکومت کو مسئلے کو حل کرنا چاہئیے تھا، اب چونکہ حکومت نے دروازے بند کر دئیے ہیں اب حکومت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی ہے اب میدان میں حکومت کے ساتھ مقابلہ ہو گا۔

0 Comments

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>