نظم

اگست کے مہینے کی پندرہ جو آی
گاندھی کی محنت بھی ہے رنگ لای


چاروں طرف آج ایسا سماں ہے
شکر اے خدا کہ ترنگا کھڑا ہے


بی اماں کی ممتا وطن سے یہ بولی
یہ شوکت ,محمد ہیں تیرے سپاہی


بھگت سنگھ و بسمل گرو تم ہو بانی
وطن کہ رہا ہے نہیں ہوں گے فانی


سبھاش اور نہرو پٹیل کہ رہے ہیں
وطن ہے امانت تمہیں دے رہے ہیں


فساد اور فتنوں کے رستوں کو چھوڈو
خدا کے لے تم وطن کو نہ توڈو


نہ بھولیں گے ہم تیری دلکش کہانی
لٹاینگے تجھ پر ہم اپنی جوانی


قربان ایک اور جلیان والا
وطن تجھ سے اپنا ہے جنموں کا وعدہ


سن...

Read More

غزل – خاموش بستی

تنِ  تنہا   چہکتا   ہے کسی  خاموش بستی  میں

پرندہ ہے  جو  رہتا ہےکسی  خاموش بستی  میں

کنارہ ہے وہ سورو کا جہاں اُس کا ٹھکانہ ہے

وہ اک دریا جو بہتا ہے کسی خاموش بستی میں

شبِ تاریک میں اٹھکر یہی اب کام ہے اُسکا

کلامِ  میر  پڑھتا  ہے کسی  خاموش  بستی  میں

وہ دوری  اہلِ خانہ سے جدائی اپنے  یاروں کی

الم کیا کیا وہ سہتا ہےکسی خاموش بستی میں

نگاہیں نم دلِ پُرغم کبھی جب ساتھ ملتے ہیں

سخن کا ساز بڑھتا ہے کسی خاموش بستی میں

نظر کس ک...

Read More