لداخ میں موسمیاتی تبدیلی: ماحولیات اور عوام کے لیے سنگین خطرہ

لداخ، جو اپنی برف پوش وادیوں، دلکش پہاڑوں، اور شدید سردیوں کے لیے جانا جاتا تھا، اب موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب فروری کے مہینے میں کرگل شہر میں کم از کم ایک سے دو فیٹ برف پڑتی تھی، جبکہ دراس، سانکو، اور سورو جیسے بالائی علاقے چار فٹ سے بھی زیادہ برف میں ڈھکے رہتے تھے۔ مقامی لوگوں کے لیے برفباری ایک عام اور متوقع مظہر تھا۔ فروری اورمارچ میں”کھس ہرژیس” کہلانے والا برفباری کاسلسلہ ہر دوسرے ہفتے جاری رہتا تھا۔

مگر اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں برفباری میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے۔ یہاں تک کہ اس سال سردیوں میں زوجیلا درہ، جو ماضی میں کئی مہینے بند رہتا تھا، پورے موسم سرما میں کھلا رہا۔ زوجیلا میں جہاں کبھی آٹھ سے دس فٹ برف جمع رہتی تھی، اب بمشکل دو فٹ برف نظر آتی ہے۔ یہی حال کرگل-زنسکار سڑک کا بھی ہے، جو اس سال فروری میں کھلی رہی، جبکہ ماضی میں یہ راستہ مئی تک بند رہتا تھا۔

برف باری میں کمی: پانی کے بحران کا پیش خیمہ

* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *

برف باری میں کمی اور درجہ حرارت میں اضافے کے سبب لداخ کے گلیشیئر تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ کئی گلیشیئر تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں، جو مستقبل میں نہ صرف زراعت بلکہ پینے کے پانی کے بحران کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ لداخ کا زیادہ تر انحصار انہی گلیشیئرز پر ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خطے میں شدید پانی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، جس سے انسانی زندگی، مال مویشی، اور زراعت سبھی متاثر ہوں گے۔

بے ہنگم ترقی اور ماحولیاتی تباہی

لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیے جانے کے بعد یہاں ترقیاتی سرگرمیوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا، مگر اس ترقی کا زیادہ تر زور انفراسٹرکچر، خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر پر رہا۔ کرگل-زنسکار شاہراہ کی تعمیر کے دوران تقریباً پچاس ہزار درختوں کو کاٹ دیے گئے، جب کہ دیگر علاقوں میں بھی سڑکوں کی تعمیر کے لیے درختوں کی کٹائی یقینی طور پر کی گئی ہوگی۔ اس بے دریغ درختوں کی کٹائی کے باعث ماحولیاتی توازن پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مگر متعلقہ محکمے اور انتظامیہ جنگلات کے تحفظ یا ان کی بحالی کے لیے خاطرخواہ عملی اقدامات اٹھاتے نظر نہیں آتے۔

سڑکوں کی تعمیر بے شک ضروری تھی، مگر ماحولیاتی تحفظ کو مدنظر رکھے بغیر یہ کام انجام دیا گیا۔ متبادل راستوں پر سڑکیں بنانے کے بجائے قدیم درختوں کو کاٹ کر راستہ ہموار کیا گیا، جس کے نتیجے میں لداخ میں درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہیں۔

مستقبل کی فکر: کیا کیا جا سکتا ہے؟

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں بوند بوند پانی کو ترس سکتی ہیں۔ لداخ کے عوام اور انتظامیہ کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، جن میں شامل ہیں۔

شجرکاری مہم: درختوں کی بے دریغ کٹائی کے ازالے کے لیے فوری طور پر وسیع پیمانے پر شجرکاری کی جانی چاہیے۔

پانی کے ذرائع کا تحفظ: برف باری میں کمی کے پیش نظر پانی کے متبادل ذرائع جیسے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے طریقے اپنانے چاہییں۔

موسمیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ دہائیوں میں لداخ میں پینے کے پانی کے ذخائر ناپید ہو سکتے ہیں۔ زمینی پانی کی سطح پہلے ہی کم ہو رہی ہے، اور بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کے موثر طریقے نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

متبادل ترقیاتی حکمت عملی: سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبے ماحول دوست طریقوں سے مکمل کیے جائیں، تاکہ درختوں اور جنگلات کو نقصان نہ پہنچے۔

مستقبل کے لیے لائحہ عمل: ممکنہ حل

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو لداخ کی قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس بحران سے بچنے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:

اول۔ شجرکاری مہم کا آغاز

بے دریغ کٹائی کے ازالے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے، خاص طور پر مقامی ماحول سے مطابقت رکھنے والے درخت لگائے جائیں۔ درختوں کے کٹنے سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کی بھرپائی کے لیے حکومت اور مقامی افراد مل کر گرین زون قائم کریں۔

دوم۔ پانی کے ذخائر کا تحفظ

مصنوعی گلیشیئرز بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پہلے قدرتی گلیشیئرز موجود تھے۔ پہاڑوں میں زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائے جائیں تاکہ برف زیادہ دیر تک قائم رہے اور پانی کے ذخائر محفوظ رہیں۔ ندی نالوں اور پہاڑی راستوں میں چیک ڈیم بنائے جائیں تاکہ پانی ذخیرہ ہو سکے اور زمین کے اندرونی ذخائر ری چارج ہو سکیں۔ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال (بور ویل) پر پابندی لگائی جائے اور متبادل ذرائع سے پانی حاصل کرنے کے طریقے اپنائے جائیں۔ بارش اور چھتوں سے بہنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ری چارج ویلز اور بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کے نظام کو فروغ دیا جائے۔

سوم۔ ماحول دوست ترقیاتی منصوبے

سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں ماحول دوست اصولوں کو اپنایا جائے تاکہ قدرتی ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ سڑکوں کی تعمیر کے لیے متبادل راستے منتخب کیے جائیں تاکہ درختوں کی کٹائی کم ہو۔

چہارم۔ عوامی آگاہی مہم

مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات اور اس کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی مہمات چلائی جائیں۔
مساجد، مذہبی اجتماعات، اور جمعہ کے خطبات میں علمائے کرام عوام کو موسمیاتی بحران کے بارے میں آگاہ کریں اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات پر زور دیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں موسمیاتی تبدیلی پر سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔

    نتیجہ: وقت کم، اقدامات ضروری

    لداخ میں موسمیاتی تبدیلی کوئی وقتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران ہے۔ ترقی کی راہ میں ماحولیات کو نظر انداز کرنا مستقبل کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی—یہ محاورہ اس صورتحال پر مکمل طور پر صادق آتا ہے۔ اگر آج ہم نے ماحولیات پر توجہ نہ دی تو آنے والی نسلیں اس کی بھیانک قیمت چکائیں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم سنجیدہ اقدامات کریں تاکہ لداخ کی قدرتی خوبصورتی، ماحولیاتی توازن، اور پانی کے وسائل کو محفوظ رکھا جا سکے۔

    0 Comments

    Leave a Reply

    XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>