میں نے بہت کچھ کھو دیا ہے

14 مارچ کی شام کو میں کرگل بازار سے اپنے گاؤں کرکت ہرل کی جانب روانہ ہوا، کرکت ہمارے علاقے کا نام ہے جو لداخ کے ضلع کرگل سے تقریباً سولہ کلومیٹر پہاڑوں صحراؤں اور خندقوں کی مسافت مسافت طے کرنے کے بعد آتا ہے، اس میں تقریباً چھ گاؤں ہیں اور اسی میں میرا خوبصورت گاؤں ہرل ہے جو سرسبز و شاداب حسین وادیوں کے آغوش میں بسا ہوا ہے۔


شام کے وقت جب میں اپنے گاؤں پہنچا تو مجھے سخت سردی کا احساس ہوا وہ شاید اس لیے کہ ایک مدت کے بعد حیدرآباد کی گرمیوں سے اپنے گاؤں کی سخت سردیوں میں واپسی ہوئی ہے، مائنس 15 ڈگری کی سردی،تیز سرد ہوائیں ، برف کی سفید چادر سے ڈھکے ہوئے پہاڑ۔جسم کے اندر تک سردی کا احساس پیدا کر رہے تھے۔سفر کی تھکان کچھ ایسی تھی کے گھر پہنچتے ہی فوراً نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔کچھ دیر ہی سویا تھا کہ افطار کا وقت ہو گیا ،افطار تیار ہو چکا تھا گھر کی خواتین اسے دسترخوان پر سجا رہی تھیں،تقریبا نو سال کے طویل ترین عرصہ کے بعد میرے ان آنکھوں نے یہ خوبصورت منظر دیکھا ہے۔

آج مدتوں بعد گھر والوں کے ساتھ افطاری کرنے کا موقع نصیب ہوا ہے۔میں خوش بھی تھا اور مغموم بھی۔اتنے طویل عرصے تک میں کہاں رہا اور کیسے رہا؟ پوری زندگی ایک البم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔بہرحال کسی طرح سے یادوں کے صحراؤں سے باہر نکلا افطاری کی اور نماز پڑھ کر بستر پر لیٹ گیا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آج ٹھنڈی زیادہ ہے یا مجھے ہی محسوس ہو رہی ہے بہرحال جیسے تیسے نیند آہی گئی۔

* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *

کئی حسین اور ڈراؤنے خوابوں کے بعد، صبح کے نو بجے میری آنکھ کھلی مگر سردی اتنی تھی کہ بستر سے باہر نکلنے کا جی ہی نہیں کر رہا تھا۔کمبل کے اندر ہی لیٹے ہوئے تھوڑی دیر فون چلانے کے بعد میں اٹھا اور ہاتھ منہ دُھل کر فریش ہوا اور ایک بار پھر ٹھنڈ کی تاب نہ لا کر بستر میں دبک کر بیٹھ گیا، تقریبا 11 بجے ہمت کر کے گھر سے باہر نکلا ہر طرف سفیدی پھیلی ہوئی تھی سفید برفیلے کوہساروں کا نظارہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔وہ اٹھکیلیاں کرتا ہوا حسین بچپن یاد آنے لگا جب ہم ان برف کے پہاڑوں پر کھیلا کرتے تھے نہ سردی کا ڈر نہ ٹھنڈی کا احساس بچپن بھی کتنا حسین ہوتا ہے۔میں آگے بڑھتا رہا اور کئی خیالات میرے ذہن کے افق پر نمودار ہوتے رہے۔

آٹھ، نو ماہ بعد گاؤں آیا ہوں تو راستے میں جتنے لوگ ملے سب سے سلام کلام کرتے ہوئے گاؤں کے بس اسٹینڈ کے قریب پہنچا، جو کچھ سال پہلے بنا ہے اس سے پہلے ہمارے گاؤں میں کوئی سڑک بھی نہیں تھی بس اسٹینڈ پر میرے کچھ بچپن کے دوست اور ان کے علاوہ گاؤں کے کچھ بزرگ بھی تھے سب سے ملاقات ہوئی۔ آج مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ اتنے سالوں بعد گاؤں کی سردی برف کے پہاڑ دیکھنے کو مل رہے تھے۔

سردیوں میں ہمارے یہاں رمضان کا احساس نہیں ہوتا۔اسی لیے دوپہر کے وقت گاؤں کے گلی کوچوں کی سیر کے لیے نکل پڑا ہلکی پھلکی دھوپ تھی مگر بے جان پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے سردی محسوس ہو رہی تھی، کہاں وہ جموں، بنارس اور حیدرآباد کی سردیاں اور کہاں یہ ہمارے گاؤں کی سرد ہوائیں۔وہاں تو ایک پتلے کپڑے میں سردی کٹ جاتی تھی اور یہاں ہر آدمی چار پانچ کپڑے پہن کر بھی ٹھنڈ محسوس کر رہا ہوتا ہے۔


چلتے چلتے اب میں گاؤں کی ان پرانی گلیوں سے ہوتے ہوئے کھیت تک پہنچا اور پھر ان پرانے مکانوں کا بھی چکر لگانے لگا جن میں سے کچھ تو اب کھنڈر بن چکے ہیں اور کچھ ویسے کے ویسے ہی سلامت ہیں جیسے میرے بچپن میں تھے ۔ان دیواروں کو چھوتے ہی جذبات کی لہریں میرے دل کو چھو کر گزر جاتی ہیں در و دیوار کے سائے میں گزرا ہوا ایک ایک پل میرے خیالات کے سمندر میں ڈوبتا، تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں،دل سے بس یہی صدا آتی ہے کاش میرا بچپن لوٹ آتا۔


گھومتے پھرتے میں گاؤں کے ان کھیتوں کی طرف جا پہنچا جہاں ہر طرف برف کی چادر بچھی ہوئی تھی اور دیکھنے پر ایسا لگ رہا تھا گویا سفید روئی کے گالے بکھرے ہوئے ہیں ۔آج مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ماحول میں ایک موسیقیت تھی جو میرے اندر مستی کی کیفیت پیدا کر رہی تھی میں اپنے آپ میں ایک بچے کی طرح جھوم رہا تھا، جھومتا بھی کیوں نا ، پرانی یادیں جو تازہ ہو رہی تھیں ،وہ گلیاں، وہ کھیت ، پرانے کھنڈر سب کچھ آج عرصہ دراز کے بعد ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔زمین میں وہ اپنائیت تھی گویا وہ مجھے گلے سے لگا رہی ہو اور ان سے پوچھ رہی ہو کہ “اتنے عرصے تک کہاں تھے کیا تمہیں میری یاد نہیں آئی۔اتنے طویل عرصے تک میرے بغیر کیسے رہے کیا مٹی کی خوشبو اور برف کی ٹھنڈک نے تمہیں کتنی صدائیں دی۔مگر تم تو ہمیں ایسے بھول گئے تھے جیسے یاد ماضی عذاب ہو۔خیر اب آگئے ہو تو دوبارہ نہ جانا یہیں رہنا میری گود میں”
میرے دل نے ان تمام شکوے شکایات کو محسوس کیا میں نے ایک مٹھی میں برف اور دوسرے میں مٹی بھر لی ۔، اف! کیا خوب احساس تھا، ایک دم اچھلنے کودنے اور زور زور سے چیخنے چلانے کا دل چاہ رہا تھا۔


ہائے ماضی کے وہ دن جو ان گاؤں کی خوبصورت گلیوں،کھیتوں میں کھیلتے گزر گئے ، گاؤں کی وہ ندی جس کا پانی اتنا صاف و شفاف ہے، جسے ہم کھیتی کے علاوہ پینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، ندی کا پانی دیکھ کر تو دل چاہ رہا تھا کہ نوش کر لوں، لیکن روزہ کی حالت میں تھا،اور خواہش دل ہی میں دبی رہ گئی،اگرچہ پی نہیں سکا، لیکن پانی کو مس کیے بغیر نہیں رہا گیا، اپنے چلو میں پانی بھر کر اس ٹھنڈے پانی سے اپنا چہرہ دُھلنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سالوں کی گرد جو شہروں دھول سے میرے چہرے پر جم گئی تھی ایک لمحے میں صاف ہو گئی۔اور میرا چہرہ بالکل ندی کے پانی کی طرح صاف ہو گیا۔


دھیرے دھیرے میں آگے بڑھا اور ایک جگہ بیٹھ کر اپنے لڑکپن کے ان دنوں کو یاد کرنے لگا جو میں نے گاؤں کی ان حسین وادیوں میں گزارے تھے۔ بچپن کتنا آرام اور بے فکری بھرا تھا، گاؤں کے ان کھیتوں میں جہاں ہم خوب اچھل کود کیا کرتے تھے، شلجم کے موسم میں لوگوں کے شلجم چرا کر کھاتے تھے اس شلجم کا ذائقہ آج تک میری زبان پر موجود ہے۔
گاؤں کے انہیں کچے رستوں سے ہوتےہوے اسکول جاتے اور اسکول سے لوٹتے ہوئے کھیل کود کیا کرتے تھے۔کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کپڑے اس قدر میلے ہوجاتے گویا کوئی مزدور کام سے واپس آ رہا ہو۔


گرمیوں کے دن جب ہم اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ کرکت چھو جو کہ ہمارا قریبی گاؤں ہے جہاں کے سیب اور خوبانی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ چرانے کا بہترین منصوبہ بناتے تھے کہ ہمیں کب اور کیسے چرانا ہے۔ اتوار کو اسکول کے بستوں کے ساتھ طلوع آفتاب ہوتے ہی چوری کا منصوبے انجام دینے اس جذبے اور تیاری کے ساتھ نکلتے کہ خوبانی بھی ہاتھ آئے اور ہم پکڑے بھی نہ جائیں ۔


گر کبھی پکڑے جاتے تو تھپیڑ کھاتے ساتھ ہی اسکول کے بستے بھی واپس نہ ملتے شام کو گھر لوٹتے ہی ماں باپ کے ہاتھوں سے بھی ڈنڈے کھاتے تھے مگر پھر بھی ہمت نہیں ہارتے اور اگلی بار پھر نئے منصوبے کے ساتھ پہنچتے تھے۔ آج یاد آ رہا تھا کہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں میں نے کتنا کچھ کھو دیا ہے۔
گاؤں پرانے مکانات، جہاں ہم تمام دوست ساتھ میں چھپن چھپائی کھیلا کرتے تھے ، وہ ندی جہاں ہم گرمیوں کے موسم میں خوب نہایا کرتے تھے، آج مجھے سب یادآ رہا تھا۔


گاؤں میں ہونے والی وہ سردیوں کی دعوتیں ، جہاں روغن جوش کے ساتھ دیسی گھی خوبانی اور دال وغیرہ خوب کھانے کو ملتی تھیں، سردیوں کی وہ شامیں جہاں ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر نون چائے کی چسکیاں لیتے تھے ، سب یاد آرہا تھا۔ بھلا کیوں یاد نہ آتے۔ میں نے اپنے گاؤں کی زندگی کے تقریباً نو سال جو گنوا دیے تھے ۔


سردیوں کے دنوں میں ہمارے گاؤں میں ایک تہوار ہوا کرتا جسے ” چمو ” ( جو کہ شین دودوں کا ایک تہوار ہے ) منایا جاتا ہے۔ہمارا کام یہ ہوتا کہ ہم ہر گھر سے مختلف انوا و اقسام کے پکوان کسی ایک کے گھر جمع کیا کرتے جس میں گوشت کے بڑے ٹکڑوں کے ساتھ ساتھ ” گزیری” ( ایک طرح کی روٹی) کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ۔ ہم تمام بچے اتنے زیادہ خوش ہوا کرتے تھے کیونکہ یہ دن ہمارے لیے کسی عید سے کم نہ تھا ہمیں خوب کھانے کی چیزیں ملتی ہم سب بڑے چاپ سے کھاتے، آج سب یاد آ رہا تھا۔


آج بیٹھے بیٹھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ میں نے کیا کیا گنوا دیا، میں نے بے شک ان نو سالوں میں نئے شہروں میں بہت نئے دوست بنائے جن میں سے کچھ اچھے تو کچھ مطلب پرست تھے، لیکن آج مجھے احساس ہوا ہے کہ میں نے جتنا پایا اس سے کہیں زیادہ کھو دیا ہے۔


وہ صحبتیں جو میٹھی چائے اور دوستوں کے ساتھ شروع ہوتی تھیں۔ گاؤں کی وہ رنگین اور سرد شامیں جہاں بیٹھ کر ہم ہم سب دوست آپس میں باتیں کیا کرتے تھے وہ سب اب ختم ہو چکا ہے، ایک گہری سوچ کے یہ احساس ہوا کہ میں نے اپنے ان لوگوں کو بھی کھویا ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، جن سے میں اب کبھی نہیں مل سکتا نہ ہی دو چار میٹھی بیش قیمتی باتیں کر سکتا ہوں افسوس مجھے ان کے جنازے میں شریک ہونے کا موقع بھی نہ ملا، آج مجھے احساس ہو رہا ہے میں نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔


ماں باپ دادا دادی بھائی بہن رشتہ دار کی وہ محبت جو مجھے بچپن میں ملا کرتی تھی۔ غلطی کرنے پر ان سے ڈانٹ اور مار کھانا۔ کبھی کوئی پریشانی کوئی تکلیف ہو تو سب مل کر حل کرنا۔ میں نے سب کھو دیا ہے۔
آج جب میں گھر آتا ہوں تو ماں باپ بھائی بہن مجھے ڈانٹتے نہیں بلکہ میرے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں میرے اوپر کوئی غصہ بھی نہیں کرتا، ان کے لیے اب میں مہمان بن چکا ہوں کچھ وقت کے لیے گاؤں میں رہنا اور پھر چلے جانا میں نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔


وہ بچپن کے دوست جن کے ساتھ کھیل کود کرتے کرتے میں بڑا ہو گیا، اب وہ بھی مجھ سے بچھڑ گئے ہیں نہ جانے وہ کدھر گئے، اب تو ان سے تعلقات بھی باقی نہیں رہے کیونکہ اب ان کے مزاج اور میرے مزاج میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ چکی ہیں۔


گھر سے دور نو سال بعد آج جب میں سردیوں کے اس موسم میں اپنے گاؤں میں آیا تو مجھے یاد ماضی نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ان تمام باتوں کا احساس ہوا کہ میں نے کتنا کچھ کھودیا ہے۔ شاید اب وہ دن وہ دوست وہ رشتہ دار وہ وقت وہ گلیاں کھیت کھلیان مجھے اپنے ماضی کی یادوں طرف تو لے جا سکتے ہیں۔لیکن وہ ماضی کہاں؟ اب وقت بہت آ گے نکل چکا ہے، اب کچھ نہیں ہونے والا یہی سب سوچتے سوچتے میری آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہونے لگی، آنسو کے قطرات چہرے سے ڈھلکتے ہوئے برفیلی زمین میں سما گئے۔

0 Comments

Leave a Reply

XHTML: You can use these tags: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>