آیت اللہ امامی کاشانی (رہ) كون تھے
اسلامی جمہوری ایران کے مجلس خبرگان رہبری کے رکن اور تہران کے امام جمعہ آیت اللہ محمد امامی کاشانی نے دار فانی کو وداع کہہ دیا ۔ جس سےایران سمیت عالم تشیع میں شدید غم کی لہردوڑ گئی ہے۔ اعلیٰ شیعہ رہنما آیت اللہ محمد امامی کاشانی اسلامی جمہوری ایران کے اعلیٰ ترین عالموں میں سے ایک ہیں، آپ 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اطلاعات کے مطابق آیت اللہ کاشانی کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہفتہ کے روز ہوا۔ ان کے انتقال پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور صدر ایران نے شیعیا ن جہاں اور سوگوار خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
آیت اللہ امامی کاشانی کون ہیں اور کیوں عالم تشیع ان کے لئے سوگوار ہیں؟
آیت اللہ محمد امامی کاشانی تہران کے امام جمعہ ہیں، وہ ایڈمنسٹریٹو کورٹ آف جسٹس کے سربراہ، مجلس خبرگان رھبری کے نمائندے، مجلس شورای اسلامی کے رکن، جامعہ روحانیت مبارز کی رکن، حوزہ علمیہ شہید مطہری کے سربراہ، شورای نگہبان کی رکن اور جمہوری اسلامی ایران کے قانون اساسی گروہ میں شامل تھے۔
* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *
محمد امامی کاشانی 3 اکتوبر 1931 کو کاشان میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا ابو تراب کاشان کے امام جمعہ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم 1938 میں شروع کی اور مزید تعلیم کے لئے 1944 میں مدرسہ کاشان چلے گئے، اور آیت اللہ راشدی سے عربی ادب کا درس حاصل كیں۔
بعد میں آیت اللہ یثربی کے ہدایت پر تہران کے سپہ سالار اسکول میں داخل ہوئے لیکن دو ماہ گزرنے کے بعد آپ قم چلے گئے اور مدرسہ فیضیہ میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔اُن دنوں آپ آیت اللہ محمدرضا مہدوی کے ساتھ قیام کرتے تھے۔
آپ نے امام موسی صدر، مہدی حائری، محمد صدوقی، سید شہاب الدین مراشی نجفی، مجاہدی تبریزی اور علی مشکینی کی موجودگی میں تعارفی اور درجے کے اسباق پڑھے اور مرزا جواد تبریزی اور شیخ مرتضی حائری کے درس میں بھی شرکت کی۔ آپ کی عمر 23 سال تھی جب آپ نے امام خمینی، آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ محیغ داماد كے اسلامی فقہ اور اصولوں کے کورس میں حصہ لیا۔
امامی کاشانی نے تہران کے مدارس میں درسی سطح کے کورس شروع کیے، 1963 میں آپ نجف کے ایک مختصر سفر پر گئے اور مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم اور آیت اللہ خوئی کی کلاسوں میں شرکت کی۔
آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیاں 1961 میں شروع کیں اور پہلوی حکومت کے خلاف امام خمینی (رہ)کی قیادت میں عوامی جدوجہد کو منظم کرنے کی راہ میں بہت کوششیں کیں، اس طرح آپ کئی بار گرفتار ہوئے اور 1976 میں آپ کو گنبد کاووس میں جلاوطن کر دیا گیا۔
اور 1976 میں آپ نے تہران کی مساجد بشمول ہدایت مسجد میں شاہ کے خلاف تقاریر کیں اور اسی وجہ سے آپ کو منبر ی کرنے پر پابندی لگا دی گئ۔ 1977 میں، آپ تہران کی جامعہ روحانیت مبارز کے مرکزی گروہ کا حصہ بنے، اور امام خمینی کے فیصلے اور بیان جاری کرنے کے بعد، آپ نے اسے شائع کیا۔
1979میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر، آپ نے اسلامی طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی، اور 1980 میں، آپ نے اسلامی کونسل کے پہلے دور میں کاشان کے لوگوں کی نمائندگی کی۔
آپ 1982 میں شروع ہونے والی ایڈمنسٹریٹو جسٹس کورٹ کے سربراہ بھی رہے۔ امامی کاشانی امام خمینی کے حکم سے آئینی نظرثانی بورڈ کے ارکان میں شامل تھے۔
1983میں آپ کو امام خمینی نے گارڈین کونسل کا رکن مقرر کیا اور 1999 تک اس کونسل کے رکن رہے۔ 1983 سے 2018 تک آپ مجلس خبرگان رہبری میں تہران کے عوام کے نمائندے رہے۔
محمد امامی کاشانی 1981 سے تہران کے امام جمعہ کے طور پر کام کر رہے تھے، اور حوزہ علمیہ شہید مطہری کے انچارج بھی رہے۔
اتوار کی صبح جاری کردہ ایک پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ امامی کاشانی کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ آپ نے فرمایا کہ بذرگ عالم دین مرحوم آیت اللہ الحاج شیخ محمد امامی کاشانی رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال پر میں ان کے محترم اہل خانہ ،پسماندگان ،شاگردوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتاہوں۔یہ متقی وخدمت گذر عالم دین طویل عرصے تک ،چاہئے انقلاب سے پہلے جدوجہد کرنے والے علمائے دین کے ساتھ یا انقلاب کے بعد شوری نگہبان ،مجلس خبرگان ،امام جمعہ تہران کی حیثیت سے خدمات ،ادارہ برائے اسلامی تبلیغآت اور حوزہ علمیہ شہید مطہری کے سربراہ جیسے حساس منصبوں پر ملک اور اسلامی جمہوری نظام کی خدمت میں میں مصروف رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کی یہ ساری نیکیاں ،بارہ گاہ پروردگار میں قبول ومنظور قرار پائیں گی۔خداوند عالم اپنی رحمت و مغفرت ،مرحوم ومغفور کے شامل حال فرمائے۔
آیت اللہ کاشانی امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کے لئے فکرمند تھے اور اپنے خطبوں میں امت مسلمہ کو دشمن کی سازشوں سے باخبر کرتے رہتے تھے۔ ایک بار انہوں نے فرمایا۔
“مغرب پیسے دیتا ہے اور اسلامی ممالک کے درمیان جھگڑا کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو قتل کر دیں اور مغرب اس سے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔”
0 Comments