بھارت میں مسلم قیادت کا کردار
ہندوستان میں آزادی کے بعد ترقی کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرت، ثقافت، سیاست، تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں میں مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے جو ان کی مجموعی درماندگی کا باعث ہے۔
مسلمانوں کے زوال کے بارے میں اگرچہ فکر مندی کا اظہار ہوتا ہے، لیکن اس سے نجات کے لیے عملی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے اور مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھیں گی اور مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر اسے دو اہم عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اولاً پورے ملک خصوصاً شمالی ہندوستان میں متوسط طبقے کے زوال کی بڑی وجہ تقسیم کے دوران مسلمانوں کی پاکستان ہجرت ہے، اور دوسری بڑی وجہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کا متعصب رویہ ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم سماج کے وسائل اور مواقع دونوں کا نمایاں نقصان ہوا۔
مسلمانوں کی ترقی کو ترجیح دینے میں حکومت کی کوتاہی بلکہ دفاتر میں بیٹھے عہدیداران کی قدم قدم پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں بتدریج ان کے ہمہ جہت زوال کا سبب بنتی چلی گئی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیے جانے کا رویہ بہت نمایاں ہے، سرکاری طور پر بھی اس کے بے شمار ثبوت اور دلائل موجود ہیں۔ اس تناظر میں مسلم رہنماؤں کے کردار کا جائزہ ضروری ہے۔
* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *
مسلم قائدین کے اقدامات اور حکمت عملیوں کو اس طور پر بھی دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں با اختیار بنانے کے ممکنہ راستوں کے بارے میں انہوں نے کیا کیا۔ ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور یہ بات بار بار مختلف حوالوں سے کہی جاتی رہی ہے کہ سماج کے اتنے بڑے طبقے کو نظر انداز کر کے ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تعلیمی ماہرین اور محققین کو اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ مسلم رہنماؤں کے اثر و رسوخ پر روشنی ڈالی جا سکے۔
سماج کی تعمیر نو اور تشکیل میں مسلم رہنماؤں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم ان شعبوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں بہتری لانے اور موجودہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی ضرورت ہے۔ دیگر عوامل پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کا گہرائی سے جائزہ، ہندوستان میں مسلمانوں کو با اختیار بنانے میں معاون ثابت ہو گا۔ حالیہ دہائیوں میں، خاص طور پر اسی اور نوے کی دہائی کے بعد سے، مسلمانوں کو با اختیار بنانے کے تصور نے کافی اہمیت حاصل کی ہے، اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ رواں صدی میں اس کی اہمیت بڑھتی رہے گی۔ مسلمانوں کو با اختیار بنانے پر زیادہ زور دراصل اس دوران دو ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کرنے کی وجہ سے ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کا چیلنج درپیش ہے، جس میں مسلمانوں، خاص طور پر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہندوتوا سے متاثر فسطائیت اپنے عروج پر ہے، جو ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا اور ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے ایک واضح خطرہ بن چکا ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقوں پر ان دو خطرات کے ممکنہ نتائج کو سمجھنا بہت ضروری ہے، مسلمانوں کے پسماندہ پس منظر والے گروہ، حکومتی وسائل اور امداد پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، لیکن عالمگیریت کی پالیسیوں کی وجہ سے حکومت سماجی اور فلاحی سرگرمیوں سے ہاتھ اٹھا رہی ہے۔
حکومت کی طرف سے فراہم کردہ روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ تعلیمی بحران بڑھ رہا ہے۔ نجکاری کی پالیسی مالی طور پر کمزور لوگوں کی تعلیم کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ ہندو فسطائیت اور عالمگیریت کی وجہ سے اقلیتی ثقافتی شناخت بھی خطرے کی زد میں ہے۔ تاہم کمزور طبقات کی ثقافتی اور مذہبی شناخت زیادہ خطرے میں ہے۔
معاشی، سیاسی اور تعلیمی ترقی کے بغیر مذہبی تشخص کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس طرح کے خطرات کے چیلنج کا سامنا کرنے میں مسلم رہنماؤں نے کیا کردار ادا کیا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے مسائل کو غلط انداز میں پیش کیا۔ قائدین کے اس مفروضے کو، کہ مسلم آبادی سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی طور پر یکساں اور یک رنگ گروہ ہے، جلد از جلد چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مفروضہ حقیقت سے بہت دور ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی رہنما اپنے ہی سماج کے مختلف طبقات کی معاشی اور سیاسی ضروریات اور حالات کو جامع انداز میں پیش کرنے، یا شاید سمجھنے ہی میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے بجائے، ان کی کوششیں اردو، پرسنل لا، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار جیسے محدود مسائل پر مرکوز رہی ہے۔
مسلمانوں کو درپیش وسیع اور زیادہ سنگین مسائل کو نظر انداز کر نے کی وجہ سے ہی ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے جہاں ان کے اقدامات اور اقتدار کے عہدوں کے فوائد بنیادی طور پر سماج کے چند اشرافیہ خاندانوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
اردو اکیڈمی، مدرسہ بورڈ، پرسنل لا بورڈ، اور وقف بورڈ جیسے اہم اداروں پر ان اعلیٰ خاندانوں کے افراد کا غلبہ ہے، جو محدود فوائد اور مواقع کے نظام کو مزید برقرار رکھتا ہے۔ نتیجتاً، وسیع تر مسلم آبادی کی آوازوں اور خدشات کو، خاص طور پر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے کو، اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مسلم رہنماؤں نے حکومتی فلاحی پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں اپنے سماج کی نچلی سطح پر بیداری اور معلومات پھیلانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ بیداری کا یہ فقدان ان پروگراموں کے مطلوبہ فوائد اور عام مسلمانوں کی زندگیوں پر ان کے حقیقی اثرات کے درمیان ایک اہم فرق بڑھاتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اشرافیہ کے چند رہنماؤں کی توجہ کچھ معروف مسائل تک محدود رہتی ہے اور وہ مسلمانوں کو درپیش دیگر اہم چیلنجوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ محدود نقطہ نظر وسیع تر مسلم آبادی کی متنوع ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے ان کے عزم پر سوال اٹھاتا ہے۔
اس کے برعکس، منڈل کمیشن تحریک ایک طاقتور قوت کے طور پر ابھری جس نے نہ صرف سرکاری ملازمتوں میں بلکہ پنچایتوں اور پارلیمنٹ میں بھی برہمن تسلط کو چیلنج کیا۔ تحفظات اور مساوی مواقع کی وکالت کرتے ہوئے، تحریک کا مقصد کھیل کے میدان کو برابر کرنا اور پسماندہ گروہوں کی منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانا تھا۔
اگرچہ ہندو سماج کے اندر زیادہ جمہوری نقطہ نظر قائم کرنے کے عمل کو تنازعات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے باوجود اس نے ایک زیادہ جامع اور مساوی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے۔ مسلمانوں نے دلی ہم آہنگی کے ساتھ جمہوریت کے عمل کو قبول کیا، اس امید پر کہ یہ ان کے اپنے دعووں اور خواہشات کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔
تاہم، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جب مسلم معاشرے میں اسی طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں، تو ان کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ان دعووں کو تخریبی قرار دیا جاتا ہے، انہیں حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ایسی آوازوں کو موافقت، ہم آہنگی برقرار رکھنے، یا رواداری کا مظاہرہ کرنے کی خواہش کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری طرف، بی جے پی، جس کی پوری عمارت برہمنی برتری کے فلسفے کی بنیاد پر تعمیر ہے، تنازعات کے باوجود ایسی آوازوں کو زیادہ سہارا دیتی نظر آتی ہے۔ بہر حال، ان جمہوری دعووں کے خلاف رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرت کا جواب دینا یا تاریخی انتقام لینے کی ذہنیت کی تائید نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے، اسے شمولیت اور افہام و تفہیم کے ماحول کو فروغ دینے کی خواہش کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ اس طرح کی رواداری کو اپنانا آئسولیشن سنڈروم (اپنے آپ کو ہر چیز سے الگ تھلگ کر لینے کی ذہنی کیفیت) کو توڑنے کے لیے بہت ضروری ہے جس نے مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے۔ ایسا کرنے سے سیاسی میدان میں مسلمانوں کی فائدہ مند مداخلت میں نمایاں اضافہ ہو گا۔
سیاست میں زیادہ مداخلت سے شرکت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اقتدار کے عہدوں پر مسلمانوں کی زیادہ نمایاں نمائندگی ہوتی ہے۔ اور مسلم کمیونٹی کے لیے وسیع تر اختیارات اور امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی حالت زار پر افسوس کرنے کے بجائے ٹھوس اور جامع پالیسی پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں اوپر سے مسلط کردہ یا خود مقرر کردہ لیڈروں کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملت کے اندر مختلف طبقوں کی معاشی، سیاسی اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔
غریب مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جغرافیائی مقامات کے انتخاب کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کے اندر اشتراک عمل اور امداد باہمی پر بات چیت ہونی چاہیے۔ ملت کے وسائل کے انتظام میں جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے مگر بظاہر اس وقت کا بڑا المیہ قائدین میں اخلاص اور بے لوث جذبے کا فقدان ہے جس کا ثبوت ایک موثر ملی تنظیم جو اب محض کاغذی تنظیم بن کر رہ گئی ہے اس کے عہدے ملنے پر غیر معمولی بلکہ فاتحانہ جشن کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ قائد کی اس حالت میں مذہبی یا سیاسی کی قید نہیں ہے۔ مسلم عوام کو نچلی سطح پر ایک سرگرم اور متحرک کردار اپنے سماج کے لیے ادا کرنا چاہیے بلکہ اسی طرح جیسے دلت تحریک اور حقوق نسواں کی تحریک کے علم بردار ادا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کو تنہائی کے مرض سے آزاد ہو کر قومی مسائل پر اپنی آواز بلند کرنی چاہیے، دلتوں کے خلاف ظلم، خواتین کے خلاف تعصب اور عیسائیوں کے قتل عام جیسے سانحات کو حل کرنا چاہیے۔ دینا سلام آزادانہ اور جرات مندانہ گفتگو کی اجازت دیتا ہے، اس لیے مختلف مسائل پر بحث کی اجازت فکر کی آزادی کے اصول کے تحت ہونی چاہیے، جس سے مسلم معاشرے میں اصلاح اور بیداری ممکن ہو۔
مسلم خواتین کو با اختیار بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ان کے ریزرویشن کی وکالت کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی شناخت علاقائی اور پیشہ ورانہ امتیازات کی بنیاد پر کی جانی چاہیے، ان کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ این جی او اور اسی طرح کی تنظیموں کی مدد سے فن و ہنر کے شعبوں کو مضبوط بنانا اور عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے۔
یہ تجزیہ مسلمانوں میں نچلی سطح کی قیادت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔جب قیادت نچلی سطح سے ابھرتی ہے، تو یہ کام کے نقطہ نظر اور ترجیحی ترتیب میں ایک معنی خیز تبدیلی لاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ملت کو درپیش مسائل کو موثر طریقے سے حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نچلی سطح پر رہنماؤں کو با اختیار بنا کر، کمیونٹی مثبت تبدیلی کے لیے کوشش کر سکتی ہے اور اپنے چیلنجوں پر قابو پا سکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم قیادت نہ ہونے کے برابر ہے۔
کسی پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا اور وقت پڑنے پر یہ امید بھی نہیں ہوتی کہ کوئی سامنے آ سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلم رہنماؤں کا اپنے سماج سے اس طرح کا ربط و ضبط ہے ہی نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ انہیں اپنے سماج کے مسائل کا ادراک اعداد و شمار کی روشنی میں نہیں ہے اور نہ کسی مذہبی رہنما نے اس نوع کی کوشش کی ہے۔ اس لیے بس کئی دہائیوں سے جن مسائل پر بولتے رہے ہیں وہی بولتے رہتے ہیں۔ فی زمانہ جو بھیانک صورت حال ہے اس کا اندازہ خود انہیں بھی نہیں ہے جو امیر، قائد اور نہ جانے کیا کیا بنے بیٹھے ہیں۔
0 Comments