غزل
ویسے تو سارا شہر تھا ان وادیوں کے بیچ
میرا وجود چھپ گیا پرچھایوں کے بیچ
مال و متاع و خون جگر سب تو دے دیا
پھر بھی ہمارا نام رہا باغیوں کے بیچ
ہم کو بتا رہے ہو نزاکت گلوں کی تم
عرصہ گزار آے ہیں رعنایوں کے بیچ
* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *
ساری تھکن فشار زہن باپ کی گئی
جیسے ہی گھر میں آیا ہے کلکاریوں کے بیچ
تنہایوں میں لوگ پھسل جاتے ہیں مگر
ملتی ہے راہ راست بھی تنہایوں کے بیچ
وہ جوش و ولولہ و وقار و شعار سب
کیا کھو دیا ہے تم نے انگڑایوں کے بیچ
غیروں سے انس و حسن سلوکی کے درمیان
اپنے بچھڑ چکے تھے مہربانیوں کے بیچ
ساری کتاب سارا غم دل سنا دیا
اک راز رہ گیا ہے نوحہ خوانیوں کے بیچ
احمؔد تیرا وجود بھی مجروح ہوگیا
حق اور حق نما کی کھینچا تانیوں کے بیچ
0 Comments