معرکہ کربلا ناگہانی حادثہ نہیں
آج سے تقریباً چودہ سو برس قبل عراق میں کربلاکے مقام پر پیغمبر رحمت کے نواسہ اصغر حضرت امام حسین ؑ نے لامثال اور عظیم الشان قربانیاں پیش کرکے اسلام اور انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگادیا۔سنہ61ھجری میں بشریت کی بقا خون کی آبیاری کا تقاضا کررہا تھا۔کیونکہ بشریت کا خون ایک ظالم وجابر ،سفاک و بدمعاش حکمران چوس رہا تھا۔اس بدمعاش نے دین نبوی میں حلال و حرام کے مابین آمیزش کی تھی بدعات وخرافات کو جنم دے کر دین ناب محمدی کی اصل ہیت کو تبدیل کردیا تھا۔اس طاغوتی نظام کو للکارنے کے لئےزمانہ کو ایک شجاعانہ کردارکی ضرورت تھی۔کیونکہ اس باطل نظام کے خلاف جو صحابہ اور تابعین صدائے حق کا جذبہ یا ارادہ رکھتا تھا اس جذبہ اور ارداہ کو ظلم و تشدد ،رعب وہیبت سے خاموش کیا جاتا تھا۔
لیکن خیبر شکن کے شجاع بیٹے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نے اس ظلم وجور پر استوار باطل نظام کے خلاف جوانمردی،شجاعت اور استقامت کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا۔اس نظام کو للکارا اوراپنی عظیم الشان قربانیوں سے یزیدی نظام کو اکھاڑ کر قیامت تک کی انسانیت کو آزاد کروایا۔تاریخ گواہ ہے کہ تحریک کربلا کوئی ناگہانی حادثہ ،سانحہ یا واقعہ نہیں ہے۔بلکہ یہ ظلم و نا انصافیوں کے خلاف ایک باضابطہ مو منٹ ہے باطل کے خلاف علی الاعلان ایک تحریک ہے اور اس تحریک میں اتنا دم ہے کہ امام عالی مقام کا ایک صحابی ”زہیر ابن قینؑ“ آقا امام حسینؑ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں ”مولا اگر یہ زندگی جاوداں (ہمیشہ رہنے والی)ہوتی اورآسائشوں کے ساتھ ہوتی۔تب بھی ہم آپ پر جان قربان کردیتے“۔
یہ تحریک اتنی مستحکم،پائیدار اور مضبوط تحریک تھی کہ امام عالی مقام کا لشکرصرف 72افراد پر مشتمل تھا اور ان بہتر افراد میں بچے بھی تھے اور عمر رسیدہ اشخاص بھی تھے۔اس کے مقابلے میں یزید ملعون کا لشکر روایات کے مطابق ۲۲ہزار سے ۳۵ہزار تک تھاحتیٰ کہ حسین بن حمدان خصیبی نے سوار اور پیادہ ملا کر چھپن ہزار۵۶ ہزار تعداد بیان کی۔ اور یہ سب کے سب شقی القلب ،سفاک ظالم اور اسلحہ سے لیس تھے۔اس کے باوجود ملعون عمر ابن سعد نے ابن زیاد کو لکھاکہ لشکر کم ہے کچھ اور افراد بھیج دو۔ابن زیاد نے عمر سعد کو کہا کہ بہتر کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے بائیس ہزار بھیجا اور کتنا بھیجوتم پاگل مت ہوگئے ہولیکن ملعون سعد نے کہا کہ تمہیں نہیں پتا کہ یہ لوگ کون ہیں یہ خیبر شکن حضرت علیؑ کے اولاد ہیں اس لشکر کا ایک ایک سپاہ ایک ایک ہزار کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *
صد در صد فیصدکربلا کی تحریک نے انقلاب برپا کردیا اور ایسا انقلاب جس سے طاغوت لرز اٹھا۔چند اصحاب و انصار کے ہمراہ امام عالی مقامؑ نے کمال کیا۔اس پختہ نظام نے یزیداور یزیدیت کی ایوانوں کو ہلادیا نہ فقط ہلادیا بلکہ قیامت تک کاخِ یزیدیت ہلتا رہے گا۔ تحریک کربلا کا کمال یہ ہے کہ ابن زیادکے لشکر کا بہت بڑا فوجی افسرجس کو ابتدا میں یہ کام سونپ دی گئی تھی کہ حسین ابن علی ؑ کو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔اس نے مولا حسین ؑ کا راستہ روکا بھی۔لیکن کتنی عظیم الشان ہے یہ کربلا کی تحریک کہ یہی فوجی افسر گھوڑے کی ایڑ لگا کر شرمندگی سے امام حسین ؑکی خدمت میں حاضر ہوکر کہتا ہے مولاؑ ۔۔۔!کیا آپ مجھے معاف کریں گے۔اور آخر کارسب اولین وقت میں حر بن یزید ریاحی میدان کارزار میں امامؑ کی رکاب میں شہید ہوتا ہے۔یہ یزیدیت کی بہت بڑی روحانی شکست تھی۔
تحریک حسینی کے مقابلے میں جو لوگ یزید کی صفوں میں موجود تھے ان میں سے اکثر لوگ امام عالی مقام کی عظمت اور آپ کی شان رتبہ درجہ اور مرتبت کا احساس رکھتے تھےوہ اس بات سے واقف تھے کہ امام حسینؑ کے بارے میں پیامبر اکرم فرماتے تھے”حسین ؑ منی و انا من الحسینؑ“یا”الحسن ؑوالحسینؑ سید شباب اہل جنہ“۔اس لشکر میں حر بن یزید ریاحیؑ جیسے احساسات رکھنے والے افراد موجود تھے لیکن یزیداور اس ملعون کے حواریوں نے ان کے نفسوں کو ذبح کیا تھاجس وجہ سےان پر نفسانی خواہشات نے غلبہ حاصل کیا تھا۔یہ لوگ ”صم بکم عمی فہم لایعقلون“ کا مصداق بنے ہوئے تھے۔انہیں مال وذر کی لالچ نے بہرا اور اندھا کردیا تھا۔ یہ درندہ صفت افراد وفا کے قائل نہیں تھے ان کے دلوں میں ہنگامہ برپا تھاذہن پراکندہ تھے۔
حسینی لشکر جو بظاہر کم تھا لیکن اس لشکر کا ایک ایک جوان روحانی کمالات کی بلندی پر فائزتھا۔بائیس ہزار لشکر کے محاصرے میں یہ حسینی ؑجوان مطمئن قلب تھے ان کے چہروں پر خوف و ڈر کا احساس تک بھی نہ تھا۔راہ حق میں قربانیاں دینے کے لئے بے تاب تھے۔کتنی عظیم تحریک تھی کہ شب عاشورا مائیں اپنے لاڑلوں کو قربانیوں کے لئے آمادہ کرتی تھیں اور خود اندازہ کیجئے کہ ایک ماں چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو میدان جہاد کے لئے آمادہ کررہی ہے اور امام کا مجاہد بنا کر پیش کررہی ہےاس طرح کا حوصلہ ،ہمت وستقامت، صبر و رضا اورشجاعت کی مثالیں ملنا نامککن ہی نہیں محال ہے۔ مثالی خواتین نے سفاکیت اور ظلم و جور کے مقابلے میں اپنے لاڑلوں کوگرمی کی تمازت، بھوک وپیاس کی شدت سےتڑپنا گوارا کیا اپنےجگر پاروںکی قربانیوں کو برداشت کیا لیکن دین محمدی پر آنچ نہ آنے دیا۔ اس بڑھ کر شجاعت کی ایک اور مثال عصر عاشورا باپ اپنے بیٹوں کو میدان کارزار میں جانے کے لئے گھوڑے پر سوار کررہا ہے اپنے لاڑلوں ،اصحاب و انصار کی میتیں خیموں تک لے آتا ہے اوراپنی بہن کی حوصلہ اور ہمت بھی بڑھا رہاہے۔
بے مثال کردار و ں سے تاریخ کربلا بھری پڑی ہوئی ہے ،حسین ابن علیؑ کاجوان بیٹا اپنے باپ سے پوچھ رہا ہے۔بابا کیا ہم حق پرہیں؟مولا نے فرمایا بے شک اس ذات کی قسم جس طرف تمام بندگان خدا کی باز گشت ہے۔علی اکبر ؑ نے فرمایا باباجان تب ہمیں موت سے کوئی پرواہ نہیں۔۱۲ماہ کے قاسم ابن حسن ؑ کو امام حسین ؑ فرماتے ہیںمیرے عزیز! موت کا ذائقہ آپ کے نزدیک کیسا ہے؟ حضرت قاسم بن حسنؑ فرمارہے ہیں چچا جان ”احلی من العسل“ شہد سے زیادہ شیرین۔یہی جذبہ تحریک کربلا کے ایک ایک جوان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا شہادت کا شوق اس قدر عمیق تھا کہ روز عاشورا اذن جہاد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔مولا ؑ نے کئی بار اپنے اصحاب کو بلا کر فرمایا یہاں تک کہ شب عاشورا شمع بجھا کر فرمایا ”تم نے ہمارا حق ادا کیا ہر ممکن مدد کی یہ لوگ صرف میرے سر کے طلب گار ہیں جب رات تاریک ہوجائے تو اس تاریکی میں تم لوگ چلے جاو میں تم سے راضی ہوں اپنی جانیں بچاو، شہادت کی پیشن گوئیاں کررہاتھا۔اللہ اکبر۔۔۔اصحاب بھی کتنے نڈر ،بہادر اور باوفا ہیں جو کہہ رہے ہیں مولاؑہم آپ کے ساتھ جئیں گے آپ کے ساتھ مریں گے کسی نے جان بچانے یا اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا احساس تک بھی نہ کیا۔مسلم ابن عوسجہ ؑنے کہا مولا ؑ ہم آپ کو چھوڑ کر چلا جائیں کل قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔خدا کی قسم اگر میں ستر مرتبہ بھی مارا جاو ¿ں تب بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں۔ایک صحابی نے عرض کیا مولاہم باپ بیٹے کی جان راہ خدا پر قربان۔ مولا یہ تو ہرگز نہیں ہوگا کہ میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاو ¿ں اور پھر ہر قافلہ والوں سے آپ کی خبر دریافت کروں خدا کی قسم یہ قیامت تک نہیں ہوسکتا۔(حوالہ کتابچہ ابو الشہدا)۔اس لشکر الٰہی میں صرف حسین ابن علی ؑ کے رشتہ دار یا دوست ہی موجود نہ تھے بلکہ ایسے افراد بھی تھے جنہیں ایمانی رشتہ کے علاوہ امام عالی مقام سے اور کوئی رشتہ نہ تھا حتیٰ کہ نو مسلم جوان بھی موجود تھے اس کے برعکس امام عالی مقام سے ایسی وفاداری نبھائی جو تا روز ابد وفاداری کی لازوال مثال بن گئی۔
واقعہ کربلا کے ایک ایک لمحے پر غور و فکر کرنے کے بعد عقل اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایسا نہیں کہ امام عالی مقام ؑ نے نعوز باللہ جان بچانے کے لئے کربلا کا انتخاب کیا۔بلکہ کربلا کے مقام پر پہنچ کر امام حسین ؑ کا کربلا والوں کو اس جگہ کانام معلوم کرنا اور کرب و بلا سن کر وہاں قیام کرنا ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ تحریک ایک مستحکم اور محکم ارادہ اور منصوبہ بند تحریک تھی۔۲۸ رجب المرجب۶۰ہجری سے لیکر کر ۲ محرم الحرام ۶۱ہجری تک یعنی مدینہ سے لیکر کربلا تک کے سفر میں میں بہت سے لوگوں نے امام عالی مقام کو سفر کربلا ترک کرنے کے مشورہ دیا۔عبد اللہ ابن عباس ؓبھی ان افراد میں سے تھے عبد اللہ ابن عباس ؓنے جب دیکھا کہ امام عالی مقامؑ نے مصمم ارادہ کرلیا ہے تو امام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ” اے چچازاد میں صبر کرنا چاہتا ہوں لیکن صبر و تحمل ہو نہیں پاتا کیونکہ مجھے ڈر ہے آپ نے جو سفر اختیار کیا ہے اس میں آپ شہید ہوجائیں اورآپ کے اولاد اسیر ہوجائیں۔اہل عراق پیمان شکن ہیں لہذا ان پر اعتماد نہیں۔ابن عبا س نے امام حسین ؑکو کہا کہ اگر آپ مکہ جانے پر ہی مصر ہیں تو بہتر ہے کہ آپ یمن کی طرف چلے جائیں۔کیوںکہ وہاں آپ کے والد گرامی کے چاہنے والوں کی کثرت ہے۔امام ؑنے جواب دیا اے چچا زاد مجھے یقین ہے کہ آپ ناصحانہ انداز میں شفقت و مہربانی کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کررہے ہیں لیکن میں نے پختہ عزم و ارادہ کرلیا ہے سفر عراق کا۔اسی طرح سفر کربلا میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے امام کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور امام سے التماس بھی کیا کہ وہ اپنا ارادہ ترک کریں لیکن امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا”میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے“۔مدینہ سے نکلتے وقت آپ نے اپنے بھائی کے نام وصیت نامہ لکھا جس میں انہوں نے فرمایا” انی لم اخرج اشرا ، و لا بطرا، ولا مفسدا ، ولا ظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی“۔ میں نے ہوا و ہوس کی وجہ سے قیام نہیں کیا اور دوسروں پر ظلم و فساد کا ارادہ بھی نہیں ہے بلکہ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے۔
اسی طرح دربار ولید میں اپنے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے علی الاعلان امام عالی مقام نے کہا کہ ”مثلی لا یبایع مثلہ“ یعنی مجھ جیسا کھبی بھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔انہوں نے کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ یزید کی بعیت نابودی اسلام کے مترادف ہے۔
یہ تمام دلیلیں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ 61ھجری کا عاشورہ ناگہانی حادثہ یا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ مدافعان اسلام وانسانیت کی ایک پائیدار ومستحکم تحریک کا معراج ہے۔کربلا کی یہ تحریک جذباتی تحریک نہیں بلکہ تفکر و تدبر پر مبنی تحریک ہے اس تحریک کا ایک ایک کردار ثابت قدمی ،مستقل مزاجی،شجاعت ،وفاداری اور بہادری کے ساتھ انسانیت کی بقا اور اسلام کی حمایت ونصرت کے لئے میدان جہاد میں درندہ صفت ملعون یزیدی لشکر کے تیروں اور تلواروں کا مقابلہ کررہا ہے۔ولی اور ولایت کے دفاع کے لئے اپنے سینوں پر تیر کھارہے ہیں اور چٹان کے مانند ڈٹے ہوکر صدائے تکبیر بلند کررہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہزاروں تحریکوں نے دھرتی پر جنم لیا لیکن یہ تحریکیں اکثر و بیشتر مادی اغراض و مقاصد پر مبنی تھی جس وجہ سے ان تحریکوں کا نام و نشان تک بھی نہ رہا اس کے مقابلے میں اسلامی اصول و قواعدو قونین پر مبنی حسینی تحریک شہدائے کربلا ؑ کے لہو مقدس سے سینچی ہوئی ایسی تحریک ہے کہ جس کو مٹانے اور دبانے کے لئے طاغوت نے پوری طاقت لگادی اور آج بھی اس نظام کو روکنے کے لئے یہ طاقت لگی ہوئی ہے لیکن یہ تحریک جھکنے بکنے اور تھکنے کا نام تک نہیں لیتی نہ روز قیامت تک لے گی بلکہ آب وتاب اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ہے اس تحریک نے خفتہ اور مردہ ضمیروں کو جگانے اور بیدار کرنے کا کام کیا اور پہلے کے مقابلے میں آج یہ تحریک مستحکم اور پائیدار ہوتی جارہی ہے جس کا اندازہ فلسطین ،لبنان ،ایران ،اور یمن وغیرہ میں ہورہاہے۔
آج استکباری نظام کو اگر کوئی چیز گراسکتا ہے وہ یہی مکتب کربلا ہے جو قیامت تک ہرا بھرا رہے گایہ تحریک امام خمینی،ؒشہید عارف حسین حسینیؒ،شہید مطہریؒ،شہید حججیؒ،شہید قاسم سلیمانیؒ،شہید نمر النمرؒ،سید علی خامنہ ای،شیخ زکزکی،سید حسن نصر اللہ ،اسماعیل ہنیہ اور شیخ عیسیٰ قاسم جیسے زمانہ کے حسینوں ؑ کو پیدا کرتے رہے گی۔جو کاخ یزیدیت ،فرعونیت اور نمرودیت کو للکارتے رہیں گے۔ اس نظام سے طاغوت پر خوف وہیبت طاری ہے اسی لئے عزاداری کو محدود کرنے کی سازشیں آج دنیا بھر میں رچائی جارہی ہے اور اس عزاداری جو درحقیقت ظلم و ظالم ،ناانصافی اور انسانی اور مذہبی اقدار کی پامالیوں کے خلاف احتجاج ہے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر حربے اور ہتھکنڈے آزما ئے جارہے ہیں ذرخرید ایجنٹوں کے ذریعے اس کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن زمانے کے یزید لاکھ کوششیں بھی کریں یہ ناکام ہوگئے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ اس تحریک کا اثر بلا لحاظ مسلک وملت دنیا بھر کے آزاد منش افراد کے خون میں سرایت کرگیا ہے۔زوال اورناکامی ان کو نصیب ہوگی جو اس عزاداری اس تحریک کے ساتھ ٹکر لیں گے۔
ادارہ کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا لازم نہیں ہے۔
0 Comments