لنکور میں آبپاشی کی قلت سے ہاہا کار، آبپاشی کوہل میں دو ماہ بعد پانی جاری
کرگل 1 جون 2021 /نیوز ڈیسک/ کرگل قصبہ سے کچھ ہی فاصلے پر موجود گاﺅں لنکور کے باشندوں کو ان دنوں پانی کی قلت کا سامناہے۔ گاﺅں کے باسیوں کے مطابق مارچ میں ہل جوتنے کے بعد پہلی بار 28مئی کو نہر میں پانی دیکھا ہے ۔لیکن اس دوران اکثر فصلیں پانی نہ ملنے سے مرجا گئی ہے۔
لنکور اور ملحقہ علاقوں میں پانی کی قلت سے پیدا شدہ صورت حال کو قریب سے جاننے کے لئے وائس آف لداخ کے ٹیم لنکور پہنچے جہاں گاﺅں کے وارڈ ممبر کے علاوہ مختلف دیگر لوگوں سے ملاقات کرکے حالات کا مشاہدہ کیا۔ اس دوران گاوں والوں نے ہمارے تیم کا والہانہ استقبال کرتے ہوے شکریہ ادا کیا۔
پانی کی قلت سے پیدا شدہ مشکلات کا تزکرہ کرتے ہوئےایک بذرگ شہری نے بتایا کہ پچھلے ایک دہائی سے اس گاﺅں کو خشک سالی کا سامنا ہے ۔سردیوں کے ایام میں برف باری نہ ہونے اور اب بارش نہ پڑنے کی وجہ سے زرعی زمین بغیر آبپاشی کے چھوڑدیاہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس سال مارچ کے مہینے میں ہل جوتنے اور فصل اگانے کے بعد سے اب پہلی بار نہر میں پانی آیاہے اور یہ پانی صرف دس سے بارہ دنوں تک بہ مشکل جاری رہے گی۔
* Click to Follow Voice of Ladakh on WhatsApp *
اسی طرح سجاد حسین جو اسی گاﺅں سے وابستہ رکھتاہے‘ نے بتایا کہ گوما کرگل ،پشو اور یوق چھوقس گاﺅں لنکور کے مقابلے میں اونچے مقام پر ہے چونکہ پانی کا منبع (ہرکونگ)گونگمہ کرگل سے چند دوری پر ہے اور نہر بھی لنکور کے مقابلے میں اونچائی پر ہے اسوجہ سے گونگمہ کرگل ،پشو وغیرہ کو پانی کی قلت نہیں ہے کیونکہ نالے کی پانی اوپر کے نہر کے ذریعے گونگمہ کرگل لیجاتاہے۔تاہم ، لنکور ان دیہاتوں کے مقابلے میں نشیب پر واقع ہے۔اور یہاں کے نہر بھی نیچے ہے اور نالے کا پانی کا بڑا حصہ اوپر کے نہر کے ذریعے دوسرے گاﺅں میں چلاجاتاہے جس کی وجہ سے ہمارے گاﺅں کو اکثر آبپاشی میسر نہیں ہوتی ہے۔اور اس سال بھی یہی صورت حال ہے،اس وجہ سے گاﺅں کو خشک سالی کا سامنا ہے۔
غلام رسول نامی ایک اور شخص نے بتایا کہ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے ان کا اس سال کھیتی باڑی کا منصوبہ نہیں تھا لیکن مارچ کے مہینے میں برف باری اور بارشیں ہوئی جس سے لوگوں میں امید پیداہوئی اور ہل چلادی لیکن تب سے نہ بارش ہوئی اور نہ ہی نہر میں پانی اتر آئی جس کے سبب نہ صرف کھیت سوکھ گئی ہے بلکہ میوہ درخت سمیت تمام قسم کے پرانے درخت مرجاچکے ہیں۔
گاﺅں میں آبپاشی کے علاوہ پینے کے پانی بھی وافر مقدار میں نہیں ہے۔پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی باشندوں نے اپنے سطح پر پانی تقسیم کرنے کابہترین نظام بنایا ہے جس کے تحت 20-24 گھروں پر مشتمل الگ الگ چار گروپ تشکیل دیا ہے اورہر گروپ کو دو دو گھنٹے پانی مہیا کیاجاتاہے اسطرح سبھی گاﺅں والوں کو پانی تقسیم کی جاتی ہے۔
غلام رسول نے مزید بتایا کہ گذشتہ کئی سالوں سے ہمارے گاﺅں خشک سالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے فصل سمیت میوہ فصل بری طرح متاثر ہوئے ۔ سرکار نے خشک سالی سے نمٹنے اور اس کی برپائی کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا اورنہ ہی کسانوں کو معاوضہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خشک سالی معاوضہ کے نام پر فی کنبہ صرف1000 روپئے دینے کا اعلان کیااور وہ بھی ابتک نہیں دیاگیا۔
اسی گاﺅں کے ایک اور شخص محمد قاسم نے بتایا کہ دو سالوں سے گاؤں میں پانی کی قلت ہے جس کے سبب لوگوں نے کھیتی ترک کردی۔ محکمہ باغبانی اور زراعت نے معاوضہ فراہم کرنے کا تخمینہ لگایا تھا لیکن ابھی تک کوئی امداد نہیں ملی ہے۔ اس سال مارچ کے مہینے میں کافی برفباری اور بارشیں ہوئی جس کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے پھر سے کھیتی باڑی شروع کردی لیکن ہل جوتنے کے بعد سے ابتک نہ ہی بارش ہوئی اور نہ ہی نالے میں پانی اترے،جس کی وجہ سے کھیت اور پھل دار درخت سوکھنے لگے۔انہوں نے مزید بتایا کہ نالے کے پانی کو اگر انصاف سے تقسیم کیاجائے تو سبھی گاﺅں سیراب ہوجاتے۔ لیکن لوگ آپسی اختلافات کے ڈرکے سبب اس مسئلے کو نہیں اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اورخاص کر محکمہ ریوینو کی ذمہ داری ہے کہ تمام گاﺅں کو پانی برابر تقسیم کرے ۔
وائس لداخ کے ٹیم سے بات کرتے ہوئے وارڈ ممبرمیونسپل کمیٹی محمد حسین نے کہا کہ آبپاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے دریا سے لفٹ ایریگیشن کے ذریعے پانی مہیا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نالے میں پانی ناکافی ہے اور پانی کی تقسیم بھی منصفانہ طریقے سے نہیں ہورہی ہے ۔جس کے سبب درخت اور فصلیں سوکھ رہی ہیں۔ محمدحسین موصوف نے مزید بتایا کہ گاؤں کو آبپاشی کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ پانی کی قلت کا ازالہ کرنے کے لئے چارسال قبل AMRUT اسکیم کے تحت لفٹ پروجکٹ شروع کی تھی لیکن ابتک یہ مکمل نہیں ہوا ہے۔
اس دوران وائس آف لداخ کے ٹیم نے یہ مشاہدہ کیا کہ گاﺅں کے نہر میں پانی جاری ہے تاہم گاﺅں والوں نے بتایا کہ پانی دودن پہلے ہی اتری گئی ہے اورتب سے گاﺅں میں لوگ باری باری کھیتوں کو پانی سے سیراب کرنے کوشش کررہے ہیں ۔
واضح رہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے ضلع کرگل کے بیشتر نشیبی علاقوں میں خشک سالی کا سامنا ہے جس کے سبب برو،لنکور،داس ،ڈیٹھنگ،لونگمی تھہ، ہرداس اور صوت کے بیشتر علاقوںمیں پانی کی شدید قلت ہے اور بروقت بارش نہ ہونے کی صورت میں فصل خراب ہونے کا اندیشہ بتایا جاتاہے ۔
1 Comments