گلگت بلتستان: لاپتہ ہونے والے کوہ پیماوں کا سراغ نہ مل سکا
ایجنسیز// 7فروی// سرمائی مہم جوئی کے دوران لاپتہ ہونے والے ملک کے نامور کوہ پیماء محمد علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیماوں کی تلاش کیلئے کے ٹو پر دوسرے روز بھی سرچ آپریشن جاری رہا۔
آپریشن میں پاک آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں اور ہائی الٹیچیوٹ کوہ پیماوں نے حصہ لیا۔ سرچ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہاجسکی نگرانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفی بخاری سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمہ داران کرتے رہے۔ مگر کہیں سے بھی لاپتہ ہونے والے کوہ پیماوں کا سراغ نہ مل سکا اور آپریشن میں حصہ لینے والے کوہ پیماء مایوس واپس آئے محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی جمعہ کی شام کے ٹو سرکرنے کے بعد واپس آرہے تھے کہ راستے میں لاپتہ ہوگئے اور تین روز سے ان کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہورہاہے کمشنر بلتستان ڈویڑن شجاع عالم نے بتایاہے کہ آپریشن پیر کے روز بھی ہوگا تاہم اب کوہ پیماوں کے زندہ بچنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں پوری قوم کوہ پیماوں کی سلامتی کیلئے دعاکررہی ہے علی سدپارہ کے فرزند ساجد سدپارہ کے ٹو بیس کیمپ سے واپس سکردو پہنچ گئے ہیں۔
کوہ پیما ساجد سدپارہ نے سکرو پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ٹیم نے کے ٹو سر کرلیا ہے، لگ رہا ہے واپسی پر کوئی حادثہ ہوا ہے، والد کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہیں، لاش تلاش کی جائے،ساجد سدپارہ نے بتایا کہ ہم نے آخری بار 5فروری کو رات 11بجے مہم جوئی شروع کی تھی، میں آکسیجن کے بغیر بوٹل نیک پہنچا تھا، 8 ہزار 200میٹر پر احساس ہوا کہ بغیر آکسیجن کے مہم جوئی ممکن نہیں رہی، اس دوران آکسیجن استعمال کرنے کی کوشش کی مگر ریگولیٹر لیک کرگئے تھے،کوہ پیما نے کہا کہ میں شدید ذہنی دبائو کا شکار ہوگیا تھا، والد اور جان اسنوری نے مجھے واپسی کا مشورہ دیا پھر میں بوٹل نیک سے واپس آگیا تھا،انہوں نے بتایا کہ والد محمد علی سدپارہ اور ٹیم وہاں سے سمٹ کے لیے گئے تھے، مجھے یقین ہے والد اور ان کی ٹیم نے کے ٹو سر کیا ہے، لگتا ہے واپسی پر والد اور ٹیم حادثے کا شکار ہوگئی، والد اور ٹیم کے زندہ بچ جانے کے امکانات کم ہوگئے ہیں، اتنی سردی میں تین دنوں تک زندہ رہنے کی امید نہیں، اب صرف لاشیں تلاش کرنے کے لیے سرچ آپریشن ممکن ہے۔
0 Comments