تنِ تنہا چہکتا ہے کسی خاموش بستی میں
پرندہ ہے جو رہتا ہےکسی خاموش بستی میں
کنارہ ہے وہ سورو کا جہاں اُس کا ٹھکانہ ہے
وہ اک دریا جو بہتا ہے کسی خاموش بستی میں
شبِ تاریک میں اٹھکر یہی اب کام ہے اُسکا
کلامِ میر پڑھتا ہے کسی خاموش بستی میں
وہ دوری اہلِ خانہ سے جدائی اپنے یاروں کی
الم کیا کیا وہ سہتا ہےکسی خاموش بستی میں
نگاہیں نم دلِ پُرغم کبھی جب ساتھ ملتے ہیں
سخن کا ساز بڑھتا ہے کسی خاموش بستی میں
نظر کس ک...